احسان کا بدلہ احسان کہانی - شیر اور چوہے کی کہانی

احسان کا بدلہ احسان کہانی

احسان کا بدلہ احسان کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھنے اور سبز جنگل میں ایک  شیر رہتا تھا۔ شیر دور دور تک جنگل کے بادشاہ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ مضبوط، نڈر، اور اپنی طاقت پر بہت فخر تھا۔

ایک صبح، جب شیر  جنگل میں ٹہل رہا تھا، اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا جانور جال میں پھنس رہا ہے۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ یہ ایک چھوٹا سا چوہا تھا تھا۔  چوہا کھانے کی تلاش میں شکاری کے جال میں پھنس گئی تھی۔

شیر چوہے کے قریب گیا اور کہا، “چھوہے، تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں شیروں کے علاقے میں گھومنے سے بہتر معلوم ہونا چاہیے”۔

چوہے نے خوف سے کانپتے ہوئے جواب دیا، “بادشاہ سلامت ، میرا یہاں آنے کا مطلب یہ نہیں تھا، میں صرف اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کی تلاش میں تھی، اور میں اس جال میں پھنس گئی۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کے احسان کا بدلہ دینے کے لیے کچھ بھی کروں گا۔

شیر کو چوہے کی التجا سن کر خوشی ہوئی۔ وہ بغیر کسی کوشش کے چوہے کو آسانی سے کھا سکتا تھا، لیکن اس نے تھوڑا مزہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا، “بہت اچھا۔ میں تمہاری جان چھوڑ دوں گا، لیکن ایک شرط پر۔ تمہیں ایک دن میری ضرورت پڑنے پر میری مدد کرنے کا وعدہ کرنا چاہیے۔ تم نے  مجھ سے یہ وعدہ ضرور کرنا ہے۔

چوہے  نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اتفاق کیا، “میں وعدہ کرتا ہوں، بادشاہ سلامت ، جب بھی آپ کو ضرورت ہو گی میں آپ کی مدد کروں گا۔ آپ کے ساتھ میں نے وعدہ کیا ہے”۔

شیر نے قہقہہ لگایا اور جال کاٹنے کے لیے اپنے طاقتور پنجوں کا استعمال کرتے ہوئے چوہے  کو آزاد کر دیا۔ چوہے  نے شیر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور زندہ رہنے کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کے پاس چلی گئی۔

سال گزر گئے اور شیر  اپنی طاقت اور غرور سے جنگل پر راج کرتا رہا۔ وہ ننھے چوہےاور ان کے وعدے کو تقریباً بھول چکا تھا۔ تاہم ایک دن تقدیر نے مختلف موڑ لیا۔

یہ بھی پڑھیں: غرور کا سر نیچا کہانی

ایک دن شیر شکار پر نکلا ہوا تھا، جنگل میں ایک بحری پیروں والے ہرن کا پیچھا کر رہا تھا۔ ہرن تیز تھا، اور شیر کو اسے پکڑنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ جوں جوں وہ تیزدوڑ رہا تھا، اچانک اس نے خود کو شکاری کے جال میں پھنسا ہوا پایا۔ یہ ایک بچھایا ہوا جال تھا، اور شیر بچ نہیں سکتا تھا۔

وہ غصے اور مایوسی کے ساتھ دھاڑا، اس کی  گرج جنگل میں گونج رہی تھی۔ اس نے آزاد ہونے کی کوشش کی لیکن جال بہت مضبوط تھا۔ اس کے پاس انتظار کرنے اور امید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ کوئی اس کی مدد کے لیے آئے گا۔

جب اُس نے بے بسی محسوس کی، اس نے ایک جانی پہچانی آواز سنی۔ “بادشاہ سلامت ، ایسا لگتا ہے کہ تم تھوڑی مشکل میں ہو،چوہے نے کہا، جو سالوں میں ایک عقلمند اور چالاک چوہا بن گیا تھا۔

شیر نے چوہے کو دیکھ کر حیرت ہوئی اور سکون ملا۔ اس نے کہا، “دیکھو چوہے ، میری پرانی دوست، یہ تم ہو! مجھے یقین نہیں آتا کہ تمہیں ہمارا وعدہ یاد ہے۔

چوہے نے مسکرا کر کہا، “یقینا، مجھے یاد ہے بادشاہ سلامت۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ جب آپ کو ضرورت ہو تو آپ کی مدد کروں گا، اور اب وقت آگیا ہے۔

اپنے تیز دانتوں سے چوہے نے جال کی موٹی رسیوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ یہ مشکل کام تھا، لیکن چوہا اپنے وعدے پر قائم تھی۔ اس نے انتھک محنت کی، اور ایک طویل عرصے کے بعد، وہ شیرو کو آزاد کرتے ہوئے رسیوں کو کاٹنے میں کامیاب ہو گیا۔

شیر بہت خوش تھا۔ اس نے کہا، “چوہے ، تم واقعی ضرورت مند دوست ہو۔ میں نے تمہاری بہادری اور مہربانی کو کم سمجھا۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب سے ایک بہتر اور عاجز بادشاہ بنوں گا۔

چوہے نے جواب دیا، “شکریہ بادشاہ سلامت ۔ یاد رکھو، مہربانی اور دوستی طاقت سے زیادہ مظبوط ہیں۔

اس دن سے شیر اور چوہا بہترین دوست بن گئے۔ شیر نے رحمدلی اور عاجزی کا صحیح مطلب سیکھ لیا، اور اس نے انصاف کے ساتھ جنگل پر حکومت کی۔ اس نے کبھی بھی چھوٹی مخلوق کی طاقت کو کم نہیں کیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ضرورت کے وقت سب سے چھوٹا دوست بھی اس کی مدد کے لیے آ سکتا ہے۔

اور اس طرح، احسان کا بدلہ احسان کی کہانی، جنگل میں ایک افسانہ بن گیا، ایک یاد دہانی کہ احسان کا کوئی بھی عمل، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، کبھی ضائع نہیں ہوتا۔

تبصرہ کیجئے

Your email address will not be published. Required fields are marked *