جوش ملیح آبادی شاعری : اردو شاعری

اس صفحہ پر آپ اُردو کے مشہور شاعر جوشؔ ملیح آبادی کی مشہور اردو شاعری پڑھیں گے۔ جس میں جوش ملیح آبادی کے مشہور اشعار، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ سب سے پہلے جوش کے مشہور اشعار آپ کے خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

جوش ملیح آبادی شاعر

جوش ملیح آبادی کے مشہور اشعار

آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں 

مشورے دے کے ہٹ گئے احباب

حد ہے اپنی طرف نہیں میں بھی 

اور ان کی طرف خُدائی ہے

ہر ایک کانٹے پہ سرخ کرنیں ہر ایک کلی میں چراغ روشن

خیال میں مسکرانے والے تیرا تبسم کہا نہیں ہے

یہ بھی پڑھیں:اردو شاعری

اس دل  میں تِرے حُسن کی وہ جلوہ گری ہے

جو دیکھے ہے کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

دل کی چوٹوں نے کھبی چین سے رہنے نہ دیا 

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا 

پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ 

کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

جوش ملیح آبادی غزل زندگی خواب پریشان ہے

زندگی خواب پریشاں ہے کوئی کیا جانے 

موت کی لرزش مژگاں ہے کوئی کیا جانے 

رامش ورنگ کے ایوان میں لیلائے حیات 

صرف اک رات کی مہماں ہے کوئی کیا جانے 

گلشن زیست کے ہر پھول کی رنگینی میں 

دجلہ خون رگِ جاں ہے کوئی کیا جانے 

رنگ و آہنگ سے بجتی ہوئی یادوں کی برات 

رہروجادہ نسیاں ہے کوئی کیا جانے

جوش ملیح آبادی

جوش ملیح آبادی کے اُردو اشعار

ایک دن کہہ لیجئے جو کچھ ہے دل میں آپ کے 

ایک دن سن لیجئے جو کچھ ہمارے دل میں ہے

میرے رونے کا جس میں قصہ ہے 

عمر کا بہترین حصہ ہے

 

گدازدل سے باطن کا تجلی زار ہوجانا 

محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہوجانا

ادب کر اس خراباتی کا جس کو جوشؔ کہتے ہیں

کہ یہ اپنی صدی کا حافظؔ و خیامؔ ہے ساقی

جوش ملیح آبادی کی انقلابی شاعری

دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی

اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا

اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں

اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاہد اے موت

میں نے ہر لطف کے موقع پہ تجھے یاد کیا 

تمام محفل کے روبرو، اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں

سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن، سوال میرا جواب تیرا

بوسیدہ روایات کی حرمت نہ کرو

تحقیق و تجسس کی اہانت نہ کرو

دین آباء بھی، تم کو لاحق ہوجائے 

ماں باپ سے ، اتنی محبت نہ کرو

جوشؔ ملیح آبادی اُردو غزل

خاموشیوں سے اور کچھ آزاد نہ ہوجائے

دڑتا ہو سلب قوت گفتار نہ ہوجائے

دیکھ اے جفا شعار نہ کر اس قدر ستم 

کوئی غریب جان سے بیقرار نہ ہوجائے

ہر چند خودکشی کو بُرا جانتا ہوں میں 

مجھ سے کھبی کام یہ کہیں ناچار نہ ہوجائے 

انجام عشق لوح پہ لکھوں نہ دوستو

دنیا وفا کے نام سے بیزار نہ ہوجائے

جوشؔ

اردو غزل

نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز 

بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز

تیری ہی زلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں 

یعنی کسی کے دام میں آیا نہیں ہنوز 

یادش بخیر جس پہ کبھی تھی تیری نظر 

وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز

محراب جاں میں تو نے جلایا تھا خود جسے 

سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز 

بے ہوش ہو کے جلد تجھے ہوش آگیا 

میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز 

تو کاروبار شوق میں تنہا نہیں رہا 

میرا کسی نے ہاتھ بٹایا نہیں ہنوز 

گردن کو آج بھی تری بانہوں کی یاد  ہے 

یہ منتوں کا طوق بڑھایا نہیں ہنوز 

مر کر بھی آئے گی یہ صدا قبر جوشؔ سے 

بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز

جوشؔ ملیح آبادی

بیتے ہوئے دن

کیا حال کہیں اس موسم کا 

جب جنس جوانی سستی تھی 

جس پھول کو چومو،کھلتا تھا

جس شے کو دیکھو،ہنستی تھی 

جینا سچا جینا تھا

ہستی عین ہستی تھی 

اُن بیتے دنوں کی بات ہے یہ 

جب دل کی بستی بستی تھی 

گورے گورے شانے تھے 

ہلکی پھلکی بانہیں تھیں

ہر گام پہ خلوت خانے تھے 

ہر موڑ پہ عشرت گاہیں تھیں

طغیان خوشی کے آنسو تھے 

تکمیل طرب کی آہیں تھیں

عشوے، چہلیں ،غمزے تھے 

پیتیں، خوشیاں،چاہیں تھیں

اُن بیتے دنوں کی بات ہے یہ 

جب دل کی بستی بستی تھی

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض شاعری 

تبصرہ کیجئے

Your email address will not be published. Required fields are marked *