شیخ سعدی کے اقوال : بہترین اقوال زریں
اس صفحہ پر آپ شیخ سعدی کے اقوال ، حکایات اور بہترین اقوال زریں پڑھ سکتے ہیں۔ ہم نے مختلف ذرایع سے شیخ سعدی شیرازی کے مختلف اردو اقوال اور نصحیتوں کو جمع کیا ہیں۔
میرے اچھے وقت نے دنیا کو بتایا کہ میں کیسا ہوں اور میرے بُرے وقت نے مجھے بتایا کہ دنیا کیسی ہے۔
جو دکھ دے اُسے چھوڑ دو مگر جسے چھوڑ دو اُسے دکھ نہ دو۔
دن کی روشنی میں رزق تلاش کرو اور رات کو اُسے تلاش کرو جو رزق دیتا ہے۔
اگر تم اللہ کی عبادت نہیں کرسکتے تو گناہ کرنا چھوڑدو۔
آسمان پر نگاہ ضرور رکھو مگر یہ مت بھولو کہ پاوں زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں۔
جو شخص بچپن میں تمیز نہیں سیکھتا بڑا ہو کر بھی نہیں سیکھتا۔
رزق کی کمی اور زیادتی دونوں ہی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔
اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے، تو اپنی اولاد کو اچھی تربیت سکھاو۔
کسی کو اچھے عمل سے دلی خوشی دینا ہزار سجدے کرنے سے بہتر ہے۔
آہستہ آہستہ مگر مسلسل چلنا کامیابی کی علامت ہے۔
جاہلوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب ان کی دلیل مقابل کے آگے نہیں چلتی تو وہ لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
کسی کی عزت کو روند کر آپ کو شاید وقتی تسکین ضرور مل جائے گی ، مگر روح کو سکون نہیں ملے گا۔
فتنہ انگیز سچائی سے مصلحت آمیز جھوٹ بہتر ہے۔
ایسے دوست سے ہاتھ دھولینا بہتر ہے جو تیرے دشمنوں کے ساتھ بیٹھتا ہو۔
شیخ سعدیؒ نے فرمایا
میرے پاس وقت نہیں ہے ان لوگوں سے نفرت کرنے کا جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ میں مصروف رہتا ہوں ان لوگوں میں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔
اپنے اخلاق کو پھول جیسا بنالو اور کچھ نہیں تو پاس بیٹھنے والا خوشبو تو حاصل کرے۔
اگر کسی فقیر کے پاس ایک روٹی ہوتی ہے تو وہ آدھی خود کھاتا ہے اور آدھی کسی غریب کو دے دیتا ہے لیکن اگر بادشاہ کے پاس ایک ملک ہوتا ہے تو وہ ایک اور ملک چاہتا ہے۔
اگر چہ انسان کو مقدر سے زیادہ رزق نہیں ملتا لیکن روق کی تلاش میں سستی نہیں کرنی چاہئیے۔
اگر چڑیوں میں اتحاد ہوجائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔
جب دشمن کی ساری تدبیریں ناکارہ ہو جائیں تو وہ دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے پس اُس وقت دوستی سے وہ کام لو جو دشمن بھی نہیں کرسکتا۔
حکایت سعدیؒ
تم اپنی ہزار غلطیوں کے باجود اپنے آپ سے محبت کرتے ہو لیکن دوسروں کی ایک غلطی کی وجہ سے ان سے نفرت کیوں کرنے لگ جاتے ہو یا تو خود غلطیاں کرنا چھوڑ دو یا دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لو۔
اِس سے تو خاموشی بہتر ہے کہ کسی کو دل کی بات کہہ کر پِھر اُس سے کہا جائے کہ کسی سے نہ کہنا۔
انسان کے علم کا اندازہ ایک دن ہو ہی جاتا ہے لیکن نفس کی خباست کا پتا برسوں بعد بھی نہیں چلتا۔
اگر زندگی اتنی ہی اچھی ہوتی تو کوئی دنیا میں روتے ہوئے نہیں آتا۔
جیسا سلوک تو مخلوق خدا سے کرے گا ویسا ہی سلوک خدا تیرے ساتھ کرے گا۔
اپنے حصے کاکام کئے بغیر دعا پر بھروسہ کرنا حماقت ہے، اور اپنی محنت پر بھروسہ کرکے دعا سے گریز کرنا تکبر ہے۔
دشمن سے ہمیشہ بچو، اور دوست سے اس وقت جب وہ تمہاری تعریف کرنے لگے۔
حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ فرماتے ہیں
میں نے ایک نیک شخص کو دریا کے کنارے دیکھا ، جس کو ایک چیتے نے زخمی کردیا تھا، اور اس کا زخم کسی دوا سے اچھا نہ ہوتا تھا۔ اور وہ عرصہ دراز سے اس تکلیف میں مبتلا تھا۔مگر ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ شکر کس بات کا ادا کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا ۔ اس لئے کہ مصیبت میں مبتلاہوں ، نہ کہ گناہ میں۔
زندگی کی درازی کا راز صبر میں پوشیدہ ہے۔
مال و دولت زندگی کی آسائش کے لئے ہے، مگر زندگی اس لئے نہیں کہ انسان اپنی زندگی صرف مال و دولت اکھٹی کرنے میں گزاردے۔
جب تک انسان بات نہ کرے اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔
اگر توکل سیکھنا ہے تو پرندوں سے سیکھو جب شام میں اپنے گھروں کو جاتے ہیں۔ تو ان کی چونچ میں کل کے لئے ایک دانہ بھی نہیں ہوتا۔
مال کی زکواۃ نکالتے رہو اس لئے کہ جب باغبان انگور کی بیکار شاخیں تراش دیتا ہے تو اُس پر زیادہ انگور آتے ہیں۔
جس نے علم حاصل کیا اور عمل نہ کیا وہ اُس آدمی کی مانند ہے جس نے حل چلایا اور بیج نہ بکھیرا۔
کسی کو اتنا پیار دو کہ گنجائش نہ چھوڑدو، اگر وہ پھر بھی تمہارا نہ بن سکے تو اُسے چھوڑدو کیونکہ وہ محبت کا طلب گار ہی نہیں بلکہ وہ ضرورت کا پجاری ہے۔
منتوں اور ترلوں سے رشتے نہیں سنبھلتے ہیں، نہ نبھتے ہیں جو جاتا ہے اسے جانے دینا چاہیئے کوئی بھی شخص دنیا کا آخری شخص نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے اپنی عزت نفس بچالی ہے تو یقین رکھے وہ نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آئے گا۔
جب درد حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو انسان روتا ہے نہیں خاموش ہوجاتا ہے۔
میں پوری زندگی دو بندوں کو تلاش کرنے پر بھی تلاش نہ کرسکا ایک وہ جس نے اللہ کے نام پر دیا ہو اور غریب ہو گیا ہو، اور دوسرا وہ جس نےظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو۔
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرلے۔
اُردو اقوال شیخ شعدیؒ
اپنا راز دوست سے بھی نہ کہو خواہ وہ مخلص ہو، کیا خبر کہ ایک دن وہ دشمن بن جائے۔ اسی طرح ہر وہ تکلیف جو تم دشمن کو پہنچا سکتے ہو نہ پہنچاو، شاید یہی دشمن ایک دن تمہارا دوست بن جائے۔
دوست وہ ہے جو دوست کا ہاتھ اُس کی پریشانی اور تنگی میں پکڑتا ہے۔
بے نمازی کو قرض مت دو، خواہ فاقہ سے اُس کا منہ کھلا ہو، اس لئے کہ جو خدا کا قرض ادا نہیں کرتا، اُسے تیرے قرض کی فکر بھی نہ ہوگی۔
اگر کوئی مردے کی قبر کھودے تو مالدار اور فقیر میں تمیز نہیں کرسکتا۔
تو نیک ہو اور لوگ تجھے برا کہیں اِس لئے بہتر ہے کہ تو برا ہو اور لوگ تجھے نیک کہیں۔
انسان کو جتنا لگاو رزق سے ہے انتا لگاو اگر رزق دینے والے سے ہوتا تو اس کا مقام فرشتوں سے بڑھ کر ہوتا۔
اپنے سے اچھے کو تلاش کر، اپنے جیسے کے ساتھ تو عمر ضائع کرے گا۔
نصیحت اگر چہ ناخوشگوار ہوتی ہے، لیکن اس کا انجام خوشگوار ہوتا ہے۔
جب کسی سے سچی محبت ہوجائے تو اس کی آخرت کے بارے میں سوچا کرو کہ اس آخرت کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ یہ تمہاری محبت کی سب سے بڑی دلیل ہوگی۔
عقل مند کی ہستی خالص سونے کی مانند ہے کہ جہاں کہیں بھی جاتا ہے لوگ اس کی قدر وقیمت جانتے ہیں۔
اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کی برداشت کرنا ہی اخلاق ہے۔
غم تمہیں آنے والی خوشیوں کے لئے تیار کرتا ہے یہ دل سے ہر چیز کو اچھی طرح صاف کردیتا ہے تاکہ نئی خوشیاں داخل کرنے کے لئے جگہ بنا سکے۔
انسان خاک سے بنا ہے، اگر اس میں خاکساری نہیں تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
نیکیاں کرتے جاو دریاں میں ڈالتے جاو۔ جب کھبی زندگی میں طوفان آیا تو یہی نیکیاں کشتی بن جائیں گی۔
تعلیم انسان کو بولنا تو سکھا دیتی ہے۔ مگریہ نہیں سکھاتی کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔
جو انسان دوسروں کے غم سے بے نیاز ہے انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔
شیخ سعدی کے اقوال زریں
مبارک ہیں وہ لوگ جن کے پاس نصیحت کو الفاظ نہیں بلکہ ان کے اعمال ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی خوبصورت ہو ،نیک سیرت بھی ہو، کام کی چیز اندر ہوتی ہے باہر نہیں۔
بخیل آدمی کی دولت اس وقت باہر آتی ہے جب وہ خود زمین کے اندر چلا جاتا ہے۔
عقل مند آدمی اس وقت تک نہیں بولتا جب تک خاموشی نہیں ہوجاتی۔
جو تجھ سے وابستہ نہیں تو اس سے وابسطہ نہ ہو۔
عقل مند اور بے وقوفوں میں کچھ نہ کچھ عیب ضرور ہوتا ہے مگر عقل مند اپنے عیب کو خود دیکھتا ہے اور بے وقوفوں کا عیب دنیا دیکھتی ہے۔