فیض احمد فیض شاعری : مشہور اشعار : اردو شاعری

فیض احمد فیض شاعری 

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات 

تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے 

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات 

تیری آنکھوں کے سِوا دنیا میں رکھا کیا ہے

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہوجائے 

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوں جائے 

اور بھی دکھ ہے زمانے میں محبت کے سِوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کے راحت کے سِوا

یہ بھی پڑھیں:اردو شاعری

میرے دل میرے مسافر ۔۔۔ فیض احمد فیض

مرے دل، مرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر 

کہ وطن بدر ہو ہم تم 

دیں گلی گلی صدائیں 

کریں رخ نگر نگر کا 

کہ سراغ کوئی پائیں 

کسی یار نامہ بر کا 

ہر ایک اجنبی سے پوچھے 

جو پتا تھا اپنی گھر کا 

سر کوئے نا آشنا سا 

ہمیں دن سے رات کرنا 

تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے

شب غم بری بلا ہے

ہمیں یہ بھی تھا غنیمت 

جوکوئی شمار ہوتا 

ہمیں کیا برا مرنا 

اگر ایک بار ہوتا

اردو شاعری : فیض احمد فیض

آئے کچھ اَبر کچھ شراب آئے 

اس کے بعد آئے جو عذاب آئے 

کررہا تھا غم جہاں کا حساب 

آج تم یاد بے حساب آئے

فیض احمد فیض اردو اشعار

اٹھ        کر      تو       آ      گئے      ہیں      تری       بزم          سے       مگر 

کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

راہ خزاں میں تلاش بہار کرتے رہے

شب سیہ سے طلب حسن یار کرتے رہے

انہی کے فیض سے بازار عقل روشن ہے 

جوگاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے

امید یار ، نظر کا مزاج،درد کارنگ 

تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اُداس بہت ہے

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان 

بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں 

بے خوابیاں، افسانے، مہتاب ، تمنائیں 

کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمیں 

کچھ اشک جو آنکھوں سےبے وجہ چھلک جائے

یہ بھی پڑھیں: محبت شاعری

فیض احمد فیض اُردو شاعری : یاد

تمہاری یاد کی جب زخم بھرنے لگتے ہیں 

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی 

جیسے ویرانی میں چپکے سے بہار آجائے

تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر 

تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے 

رہی فراغت ہجراں تو ہو رہے گا طے 

تمہاری چاہ کا جوجو مقام رہتا ہے

نظم : تنہائی

پھر کوئی آیا دِل زار! نہیں کوئی نہیں 

راہ رو ہوگا، کہیں اور چلا جائے گا 

ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار 

لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابید ہ چراغ 

سو گئی راستہ تک تک کہ ہر ایک راہ گذر 

اجنبی خاک نے دھندلادئیے قدموں کے سُراغ 

گُل کرو شمعئیں،بڑھادو،مے و مینا و ایاغ 

اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو

اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا!۔

فیض احمد فیض 

اردو غزل : فیض احمد فیض

شام فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی 

دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی

بزم خیال میں ترے حن کی شمع جل گئی 

درد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی 

جب تجھے یاد کر لیا، صبح مہک مہک اٹھی

جب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی 

دل سے تو ہر معاملہ کرکے چلے تھے صاف ہم 

کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی 

آخر شب کے ہمسفر فیض نجانے کیا ہوئے 

رہ گئی کس جگہ صبا،صبح کدھر نگل گئی

اردو غزل

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں،کب بات میں تری بات نہیں 

صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں 

مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں 

دِل والو کوچئہ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں 

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں 

میدانِ وفا دربار نہیں، یاں نام ونسب کی پوچھ کہاں 

عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں 

گر بازی عشق کی بازی ہےجو چاہوں لگا دو ڈر کیسا 

گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

فیض احمد فیض

اُردو اشعار

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے 

چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں 

جھگڑے ساے انا کے ہوتے ہیں

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا

جور کے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے 

رہ      یار        ہم        نے       قدم          قدم         تجھے          یاد        بنا        دیا

وہ ہمارا ہے اس طرح سے فیض 

جیسے بندے خدا کے ہوتے ہیں

بہار اب آکے کیا کرےگی کہ جس سے تھا جشنِ رنگ ونغمہ 

وہ گل سرشام جل گئے ہیں، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں

فیض احمد فیض 

راز الفت چپھا کے دیکھ لیا ۔۔ فیض احمد فیض

راز الفت چپھا کے دیکھ لیا 

دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا 

اور کیا دیکھنے کو باقی ہے 

آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا 

وہ میرے ہوکے بھی میرے نہ ہوئے 

اُن کو اپنا بنا کے دیکھ لیا 

آج اُن  کی نظر میں کچھ ہم نے 

سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا 

آس اُس در سے ٹوٹتی ہی نہیں 

جا کے دیکھا، نہ جا کے دیکھ لیا 

فیض تکمیل غم بھی ہو نہ سکی 

عشق کو آزما کے دیکھ لیا 

فیض احمد فیض غزل

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کر 

وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزارکے 

ویراں ہے میکدہ، خم و ساغراُداس ہیں 

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے 

اِک فرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چاردن 

دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگارکے 

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا 

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگارکے 

بُھولے سے مُسکرتودیے تھے وہ آج فیض 

مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے

فیض احمد فیض

اُٹھ کر تو آگئے ہیں ۔۔۔ فیض احمد فیض

سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں 

ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں

شمع نظر، خیال کے انجم، جگر کے داغ 

جتنے چراغ ہیں تری محفل سے آئے ہیں 

اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر 

کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں 

ہر ایک قدم اجل تھا ہر اک گام زندگی 

ہم گھوم پھر کے کوچہ قاتل سے آئے ہیں 

بادِ خزاں کا شکر کرو فیض جس کے ہاتھ 

نامے کسی بہار شمائل کے آئے ہیں

اگر آپ کو فیض احمد فیض شاعری اچھی لگی ہے۔ تو اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شئیر کریں ۔ 

تبصرہ کیجئے

Your email address will not be published. Required fields are marked *